تحریر: حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا ڈاکٹر ذوالفقار حسین
حوزہ نیوز ایجنسی। الہی امتحان اگرچہ عمومی ہے لیکن انسان کی تربیت میں بہت موثرہے جب مکہ میں مسلمان اقلیت اور اسلام ابھی پروان چڑھ رہاتھا جس میں سختیاں اور دشواریاں اوج پر تھیں، مسلمان ان مصیبتوں اور سختیوں کا مقابلہ کرتے اور صبر کا مظاہرہ دکھاتے جبکہ کفارِ مکہ ان کو آزار و اذیت دینے میں کسی چیز سے دریغ نہیں کرتے تھے، یہی مسلمانوں کے لئے امتحان تھا تا کہ واقعی مومن، منافق سے جدا ہوسکے اور مجاہد اور سست افراد ایک دوسرے سے جدا ہوسکے۔
بعض لوگ ایسے ماحول میں قرار پاتے ہیں جو ہر نظرسے آلودہ ہوتے ہیں اور جن کے لئے انحراف کے دروازے کھلے ہوئے ہیں جن کو چاروں طرف سے گمراہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کے لئے بہت بڑا امتحان ہے کہ ایسے ماحول میں اس آلودہ ماحول میں ڈھل نہ جائے بلکہ اس کا جی جان اور صبر و پائداری سے مقابلہ کرے اور آلودہ افراد سے اپنے آپ کو دور کرے اور اپنی پاکی کو باقی رکھے۔
بعض لوگ محرومیت کے پہاڑ کے تلے ہوتے ہیں ان کو چاروں طرف سے فقر و ناداری گھیرے ہوئے ہوتی ہے اگر وہ اپنے ایمانی سرمایہ کو محرومیت کے عوض بیچ دے تو ان کے لئے بہت بڑا نقصان ہوگاایسے افراد اپنے ایمان و تقوی ٰ کو محفوظ رکھتے ہیں اور محرومیت کو برداشت کرتے ہیں ان کے لئے یہی امتحان ہے۔
مصیبتیں اور دشواریاں دین کی راہ میں، غلامی، ہوائے نفس و شہوت ہر ایک ان میں سے امتحان کے وسیلے ہیں؛لیکن ایسے سخت امتحان میں کامیاب ہونے کے لئے مسلسل کوشش و جدو جہد اور خدا پر توکل کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔
مصیبتیں اور دشواریاں امتحان کا زینہ
خداوند فرماتا ہے:
( وَ مِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ ءَامَنَّا بِاللَّهِ فَإِذَا أُوذِىَ فىِ اللَّهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ الله )
ترجمہ: اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پرایمان لائے لیکن جب اللہ کی راہ میں اذیت پہنچتی ہے تو لوگوں کی طرف سے پہنچنے والی اذیت کو عذاب الہی کی مانند تصور کرتے ہیں۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں الہی سزائیں(عذاب) سے تعبیر کی گئی ہیں لیکن لوگوں کو آزار پہونچانا حقیقت میں عذاب نہیں ہے بلکہ ایک امتحان ہے اور یہ آزار و اذیت دین کی راہ میں انسان کے تکامل کا وسیلہ ہے۔
علامہ طباطبائیؒ مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:
( تمام موردِ بحث آیات ایسے افراد کے لئے ہے کہ جن کا ایمان عاریتی ہے جیسا کہ ان افردا کا ایمان عافیت اور سلامت طلب ہے اور جب ان پر کوئی اذیت ہوتی ہےتو دوسروں کو آزار دیتے ہیں اس لئے قرآن کریم نے ان کے ایمان کو مطلق طور سے ایمان نہیں فرمایا اور اس طرح نہیں فرمایا" و مِن الناسِ مَن یومنُ باللہِ"لوگوں میں بعض ایسے ہیں جو خدا پر ایمان لائیں گے بلکہ فرمایا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے ایمان لایا۔
پھر علّامہ بیان کرتے ہیں کہ ایمان ایسے لوگوں کی نظر میں ایسے خوار ہوگیاہے کہ عقل کے حکم کو جو آزار و اذیت سے دوری کو بتاتی ہے لوگوں کو اذیت دینا اور الہی عذاب کو ایک نگاہ میں دیکھتے ہیں اور اسی وجہ سے جب ان کے ایمان کو ضرر پہنچتا ہے تو اپنے آپ سے کہتے ہیں کسی کی بھی عقل ایسا حکم نہیں کرتی ہے کہ خدا پر ایمان رکھنے کا بھگتان زحمت اور عذاب میں مبتلا ہونا ہے اس وقت ایسے افراد ایمان سے دور ہوجاتے ہیں اور شرک کی طرف مائل ہوجاتے ہیں تا کہ لوگ ان کو اذیت نہ کریں۔
حالانکہ یہ فکر غلط ہے اس لئے کہ یہ عذاب اور شکنجہ جو کفار کی طرف سے ان کو پہنچ رہا تھا وہ کم اور بہت جلدی تمام ہوجانے والا تھا۔اور ایک دن ایسا آئے گا جب ان کے شر سے نجات پاجائیں گے اگرچہ آزار و اذیت سہتے سہتے مرجائیں لیکن اپنے ایمان کو بیچ نہیں سکتے جس وقت مر جائیں گے تو اب شکنجہ نہیں ہوگا، جبکہ خدا کا عذاب عظیم بھی ہے اور ابدی بھی ہے اور دائمی ہلاکت کا باعث ہے۔
ایمان کا زیور امتحان کی موتیوں کا
خداوندمتعال ایک دوسرے مقام میں اوّلِ سورۂ عنکبوت میں فرماتا ہے کہ :
(أَ حَسِبَ النَّاسُ أَن يُترَْكُواْ أَن يَقُولُواْ ءَامَنَّا وَ هُمْ لَا يُفْتَنُون )
ترجمہ: کیا لوگوں نے یہ خیال کررکھا ہے کہ وہ صرف اتنا کہنے سے چھوڑ دیئے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور یہ گروہ آزمائے نہیں جائیں گے؟۔
مذکورہ آیتِ شریفہ کے سلسلے میں آیا ہے کہ :
" یفتنون کما یفتن الذھب، ثمّ قالَ یَخلصون کما یخلص الذھب"
" و ہ لوگ آزمائے جائیں گے جس طرح سونا پگھلایا جاتا ہے اور وہ خالص ہوجاتا ہے جیسا کہ آگ کی تپش سونے کو اچھی طرح نکھار اور جو سونا نہیں ہے اس کو جدا کردیتی ہے"۔
روایت میں سختیوں کا مقصد
حضرت امیر المومنین علیؑ اس سلسلے میں فرماتے ہیں:" آگاہ ہو جاؤ آج تمہارے لئے وہ آزمائش کا دور پلٹ آیا ہے جو اس وقت تھا جب پروردگار نے اپنے رسول 9کو بھیجاتھا قسم ہے اس پروردگار کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا تھا کہ تم سختی کے ساتھ تہ و بالا کئے جاؤ گے تمہیں باقاعدہ چھانا جائے گااور دیگ کی طرح چمچے سے الٹ پلٹ کیا جائے گایہاں تک کہ اسفل اعلی ہوجائے اور اعلی اسفل بن جائے۔